اقتصادی جائزہ - 02
حالیہ کچھ عرصے سے مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے شعبے میں بڑی اہم پیش رفت دیکھی جا رہی ہے اور یہ علاقہ توانائی کے شعبے میں میزبانی کے بھی فرائض ادا کررہاہے

حالیہ کچھ عرصے سے مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے شعبے میں بڑی اہم پیش رفت دیکھی جا رہی ہے اور یہ علاقہ توانائی کے شعبے میں میزبانی کے بھی فرائض ادا کررہاہے۔ سن 2009ء کے بعد بین الاقوامی توانائی فرموں کی جانب سے علاقے میں جاری ہائیڈرو کاربن ریسرچ کے دائرہ کار میں بڑے پیمانے پر قدرتی گیس کے ذخائر دریافت کرنے کی وجہ سے مشرقی بحیرہ روم میں بڑے پیمانے پر توانائی کے شعبے سے منسلک کمپنیوں نے اس میں گہری دلچسپی لینا شروع کردیا۔ اسرائیل ، جنوبی قبرصی یونانی انتظامیہ ، مصر اور لبنان نے اس سلسلے میں اپنی تحقیقات اور کھدائی کے کام کے طرف توجہ مبذول کرلی اور کئی ایک ذخائر بھی دریافت کیے۔
سن 2010ء میں اسرائیل کی جانب سے دریافت کردہ لیویاتھن ، سن 2011ء میں جنوبی قبرصی انتظامیہ کی جانب سے دریافت کردہ افرودیت ذخائر اور سن 2015ء میں مصر کی جانب سے دریافت کردہ ظہور ذخائر علاقے میں قدرتی گیس کے سب سے بڑے ذخائر تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ ذخائر ان ممالک میں قدرتی گیس کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ممالک کو بھی فروخت کرنے کے لحاظ سے بھی بڑے اہم ذخائر تصور کیے جاتے ہیں۔
لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ صرف ذخائر کا مالک ہونا ہر وقت ایڈوانٹیج کا باعث نہیں ہوتا ہے اس کے لیے ان ذخائر کو عالمی منڈیوں میں فروخت کرنے کے لیے گزرگاہ کے مناسب مقام پر موجود ہونے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دریں اثنا مشرقی بحیرہ روم سے دریافت ہونے والی قدرتی گیس کے اپنے خطے کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر بھی موجود مسائل کی وجہ سے اس گیس کے بین الاقامی منڈیوں تک پہنچانے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔
ان مشکلات کی وجہ سے مشرقی بحیرہ روم کے یہ ممالک اپنی قدرتی گیس ے ذخائر ہونے کے باوجود کچھ عرصے تک اسے عالمی منڈیوں تک پہنچانے سے محروم رہیں گے۔
جنوبی قبرصی یونانی انتظامیہ پر شمالی قبرصی ترک جمہوریہ اور ترکی کے اعتراضات کے باوجود جنوبی قبرصی یونانی انتظامیہ کی جانب سے یک طرفہ طور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی کوششوں سے علاقے میں بحران کا باعث بنا ہے۔ یونانی قبرصی انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں کے جاری رہنے کی وجہ علاقے میں مسائل کو ابھی تک حل نہیں کیا جاسکا ہے۔
ترکی کبھی بھی قبرصی یونانی انتظامیہ کی اس پالیسی اور رویے پر خاموش نہیں بیٹھا رہا ہے بلکہ اس نے علاقے میں کھدائی کے کام کو جاری رکھنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر اجازت حاصل کرتے ہوئے علاقے میں اس کا بھی بڑا اثرو رسوخ ہونے کا واضح پیغام دے چکا ہے اور علاقے میں اپنی کھدائی کو جاری رکھا ہوا ہے۔
ترکی نے علاقے میں مشرقی بحیرہ روم میں اپنی موجودگی کو وزارتِ قدرتی وسائل اور توانائی کے زیر اہتمام قومی توانائی اور معدنیات کی پالیسی کے ذریعے ایک بار ظاہر کیا ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں ترکی نے اپریل 2017 کو علاقے میں باربروس خیرالدین نامی بحری جہاز کو کھدائی اور تحقیقات کے مقصد کے لیے علاقے روانہ کیا جس سے ترکی کی علاقے سے متعلق پالیسی کی بھی واضح عکاسی ہو جاتی ہے۔
حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکی کی جانب سے استعمال کیے جانے والے ڈیپ سی میٹرو-2 بحری جہاز نے مشرقی بحیرہ روم میں بڑے پیمانے پر اپنی کھدائی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس سے ترکی کی علاقے میں بڑے فعال طریقے سے کھدائی کے کام کا جاری رکھنے کی بھی عکاسی ہو جاتی ہے اور ترکی سن 2018 کے پہلے چند ماہ کے دوران ہی مشرقی بجحیرہ روم میں اپنا قدرتی گیس کا کنواں کھودنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
ترکی کی جانب سے مشرقی بحیرہ روم اپنی اس کاروائی کی وجہ سے حاصل ہونے والے مثبت نتائج حاصل ہونے کی صورت میں اس کے ترکی کے اندر کی منڈی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مشرقی بحیرہ روم کے علاقے کی پیش رفت کے بارے میں اگر مختصر سا جائزہ پیش کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ترکی کے مستقبل میں دیگر علاقائی ممالک کے سامنے ایک اپم مقام پر کھڑا دکھائی دے گا۔ ترکی کو جغرافیائی حثیت کی بنا پر حاصل ایڈوانٹیج اور سیاسی اور اقتصادی استحکام کی وجہ سے اپنی قدرتی گیس کو فروخت کرنے والے ممالک کے لیے ایک مرکز کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ ترکی میں اس وقت کئی ایک توانائی کے منصوبو اور پائپ لائینوں کے منصوبوں کو مکمل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اسے علاقے میں توانائی کے ٹرمینل کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ بحیرہ خضر اور روس کی قدرتی گیس کو خریدنے کے خواہاں یورپی ممالک کے لیے ترکی ایک بہت ہی اہم گزرگاہ کی حیثیت بھی اختیار کر جائے گا اور اس طرح مشرقی بحیرہ روم میں اسے توانائی کے اہم مرکز کی بھی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔